علم تعبیر کا موضوع خواب سے ہے کیونکہ اس علم میں خواب کے متعلق حالات بیان کیے جاتے ہیں ۔اس علم کو حاصل کرنے کا مقصد خوابوں کی صحیح تعبیر بیان کرنا ہے ۔گو ہر چیز کا موجد در حقیقت حق تعالیٰ ہے لیکن عرف ِ عام میں ہر علم کا مو جد اُس شخص کو کہتے ہے جس نے سب سے پہلے اس علم کو دنیا میں رواج دیا ہو ۔ علم تعبیر کے مو جد حضر ت یوسف o ہیں ،جنہیں سب سے پہلے اللہ کی طرف سے یہ علم عطا ہوا ۔ چنانچہ ارشاد باری ہے :
وَکَزٰلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَاْوِیْلِ اْلاَ حَادِیْثِ
اے یو سفؑ ! اسی طرح تیرا رب تجھے بر گزیدہ بنا لے گا اور تجھے علم تعبیر خواب عطا فر مائے گا۔
(یوسف 12/6)
اس آیت میں یو سف o سے علم تعبیر خواب عطا فر مانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ پھر یہ وعدہ پورا بھی کر دیا گیا یعنی حضرت یوسف o اس بات کا خود اقرار کرتے ہیں کہ :
رَبِّ قَدْ اٰ تَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْ وِیْلِ الْاَ حَادِیْثِ
اے پر ور دگا ر ! تو نے مجھےسلطنت بھی عطا فر مائی اور علم تعبیر بھی عطا فر مایا ہے ۔
(یوسف 12/101)
نبی اکر م g نے فر مایا کہ تعبیر کے لئے اپنا خواب کسی دوست صالح یا عالم با عمل یا صاحب دل ذی رائے کے سوا کسی سے بیان نہیں کر نا چاہیئے کیونکہ یہ لوگ خواب کو حتی الا مکان نیکی پر محمو ل کر کے اس کی اچھی تعبیر دیں گے۔
حضر ت امام جعفر صادق r فر ماتے ہیں کہ چار قسم کے لوگوں سے تعبیر خواب پو چھنا ناجائز ہے کیونکہ ان سے اندیشہ ہے کہ وہ خواب کی تعبیر بری بتا دیں اور یہ ظاہر ہے کہ خواب کی تعبیر جیسی بتائی جائے گی ویسی ہی واقع ہو جا تی ہے۔
1۔ بے دین لوگوں سے
2۔عورتوں سے ١
3۔ جاہلوں سے
4۔دشمنوں سے
جب کوئی شخص مکر وہ نا پسند ید ہ خواب دیکھے تو چا ہیے کہ حق تعا لیٰ کی اس خواب کے شر سے اور ابلیسی فتنہ سے پناہ ما نگے اور ایسا خواب کسی سے بیان نہ کرے ، اس صور ت میں اس پر کو ئی برا اثر مر تب نہ ہو گا ۔ حضور حبیب کریم g کا ارشاد گرامی ہے:
اَلرُّؤْیَا عَلٰی رِجْلِ طَائِرٍ مَّالَمْ یُحَدِّ ثْ بِھَا فَاِذَ ا حَدَّثَ بِھَا وَقَعَتْ
جب تک خواب بیان نہ کیا جا ئے اس وقت تک پر ندہ کے پا ؤ ں پر معلق رہتا ہےاور جب بیان کردیا جائے تو اسی طرح واقع ہوگا۔
٢
برا خواب بیان کر نے کی اس لئے مما نعت کی گئی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی معبر بہ حسب ظاہر کو ئی بری تعبیر دے دے اور عام طور پر مشا ہدہ میں آیا ہے کہ جیسی کو ئی تعبیر دیتا ہے بتقد یر الہٰی ویسا ہی وقوع پذیر ہو تا ہے ۔
حضرت ابن سیرین r نے فر ما یا ہے کہ خواب کے عجائبا ت میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی خواب میں خیر ،منفعت اور راحت دیکھتا ہے یا شر اور آفت دیکھتا ہے اور وہی خیر اور راحت یا شر اور آفت بالکل بیداری میں دیکھتا ہے ۔ دوسری با ت یہ ہے کہ بہت سےلو گ کند فہم اورکند زبان ہو تے ہیں ۔جو بیداری میں لمبی بیت یا شعر یا د نہیں کر سکتے ہیں خواب میں پڑھ کر یاد کر لیتے ہیں ۔ بیداری میں درست پڑھتے ہیں اور بہت سے جا ہل لو گ ہو تے ہیں کہ حکمت کی باتیں اور اچھے الفاظ بیان کر تے ہیں جو انہوں نے خواب میں یاد کئے ہیں، جن کو کو ئی حکیم اور عالم بھی نہیں بیان کر سکتا ہے ۔
حضرت جا بر مغربی r نے فر ما یا ہے کہ خواب کے عجا ئبا ت میں سے ایک یہ ہے کہ خواب میں ایک جھوٹی چیز نظر آتی ہے اور اس کی تاویل اس کے فر زند یا بھائی پر واقع ہو تی ہے ۔ چنا نچہ آنحضرت g نے خواب میں دیکھا کہ ابو جہل مسلما ن ہو گیا ہے ،حالا نکہ اس کے بعد حضرت عکرمہ r،ابوجہل کے فر زند اسلام لا ئے۔ یہ بھی ہو تا ہے کہ بچے کی خوا ب کی تاویل ما ں پرپڑتی ہے اور غلام کے خواب کی تا ویل آقا پر پڑتی ہے ۔ ایسے عجائبا ت خواب میں بہت ہو تے ہیں ۔
اگر چہ علم تعبیرپر اکثر اولیاء کرام و علما ئے کو کافی دستر س ہو تی ہے ۔ لیکن مندرجہ ذیل چھ بزرگ اس علم میں خاص طور پر ماہر مشہور اور یکتا ئے زمانہ ہو گز رے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس علم میں عموماً ان ہی چھ اماموں کے اقوال بطور سند پیش کئے جا تے ہیں :
1. حضرت دانیال r
2.حضرت امام جعفر صادق r
3.حضرت امام محمد بن سیرین r
4حضرت اما م جابر مغربی r
5. حضرت اما م ابراہیم کر مانی r
6. حضرت امام اسماعیل بن اشعث r